اکثر والدین نے یہ بات محسوس کی ہے کہ بچوںکو اگر چوسنی کی عادت ڈالی جائے تو ان میں سے بہت کم انگوٹھا چوسنے کی عادت کی طرف مائل ہوتے ہیں لیکن یہ بھی شکایت ہے کہ بچے کو اگر چوسنی کی عادت پڑ جائے تو وہ پھر بڑی مشکل سے اسے ترک کرتا ہے ۔
کوشش کریں کہ بچے کوانگوٹھا اور چوسنی میں سے کسی کی بھی ضرورت پیش نہ آئے۔انگوٹھا چوسنے کی طرح چوسنی کا استعمال بھی ماہرین میں اختلاف رائے کاموضوع رہا ہے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ چوسنی پیٹ کے درد کو روکتی ہے اور اس کے استعمال سے بچے کو انگوٹھا چوسنے کی عادت بھی نہیں پڑتی۔ ماضی میں اس کا استعمال بہت عام تھا لیکن فی الحال اس کی مقبولیت میں کمی واقع ہو گئی ہے اور اب والدین اس کے استعمال میں محتاط ہو رہے ہیں کیونکہ ایک خیال یہ ہے کہ چوسنی کا استعمال صحت کیلئے نقصان دہ ہے کیونکہ اس کے ساتھ جراثیم لگ جاتے ہیں جو بچے کے منہ کے اندر چلے جاتے ہیں۔
بہر حال اکثر والدین نے یہ بات محسوس کی ہے کہ بچوں کو اگر چوسنی کی عادت ڈالی جائے تو ان میں سے بہت کم انگوٹھا چوسنے کی عادت کی طرف مائل ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف والدین یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ بچے کو اگر ایک دفعہ چوسنی کی عادت پڑ جائے تو وہ پھر بڑی مشکل سے اسے ترک کرتا ہے اور بعض اوقات تو تین سال تک بھی یہ عادت برقرار رہتی ہے۔ کئی والدین کہتے ہیں کہ انگوٹھا چوسنا چوسنی کی عادت سے کہیں بہتر ہے۔ جہاں تک ماہرین کا تعلق ہے وہ چوسنی کو اس اعتبار سے بہتر سمجھتے ہیں کہ یہ عادت انگوٹھا چوسنے کا تعلق ہے اکثر دو یا تین سال اور بعض تو 6سال کی عمر تک چوستے رہتے ہیں اس کے بعد ہی کہیں جا کر آہستہ آہستہ ان کی عادت ختم ہوتی ہے اس کے مقابلے میں ایک سروے کے دوران ماہرین کو یہ معلوم ہوا کہ چوسنی کی عادت میں مبتلا بچے اول تو تین سے چھ ماہ کی عمر تک ورنہ ایک یا دو سال کی عمر میں ہر صورت چوسنی چھوڑ دیتے ہیں اور چوسنی کا یہ وہ سب سے بڑا فائدہ ہے جو اسے انگوٹھا چوسنے پر حاصل ہے۔ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ چوسنی سے بچے کے دانت اتنے زیادہ باہر کو نہیں نکلتے جتنے کے انگوٹھا چوسنے سے نکلتے ہیں۔ ماہرین اس بات کی توجیہہ پیش کر سکتے ہیں کہ بچے چوسنی کو بہت جلدی کیوں ترک کر دیتے ہیں‘ اصل میں بچے کی انگوٹھا چوسنے کی سب سے زیادہ خواہش پہلے تین سے چار ماہ کے دوران ہوتی ہے لیکن اکثر بچے تین چار ماہ کی عمر تک اس قابل نہیں ہوتے کہ اپنے انگوٹھے کو منہ تک لے جا سکیں لہٰذا اس دوران جو مائیں بچے کو چوسنی دے دیتی ہیں وہ بچے اس عرصہ میں اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں لیکن ماہرین والدین کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر انہیں بچے کے منہ میں چوسنی اچھی نہیں لگتی تو انہیں استعمال نہیں کرانی چاہیے۔ بہرحال ماہرین کے مطابق ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ بچہ کو چوسنی کی ضرورت پیش نہ آئے جو مائیں اسے اس خوف سے استعمال کرانا چاہتی ہیں کہ ان کے بچے کو انگوٹھا چوسنے کی عادت نہ پڑ جائے تو یہ جان لینا چاہیے کہ پچاس فیصد بچے اول تو انگوٹھا چوستے ہی نہیں اور اگر چوستے ہیں تو بہت تھوڑی مدت کیلئے۔ ان حالات میں چوسنی کو متبادل ذریعہ بنانے کی ضرورت بھی نہیں البتہ اگر دودھ پینے کے بعد بھی بچے کے دل میں انگوٹھا چوسنے کی شدید خواہش موجود رہتی ہو تو پھر چوسنی کا استعمال کرایا جا سکتا ہے لیکن اگر پہلے ہی اس عادت کا شکار ہو تو وہ مشکل سے یہ متبادل طریقہ اختیار کرے گا۔ ان تمام تر باتوں کے باوجود چوسنی کے نقصانات بھی ہیں اور اکثر ماہرین کے نزدیک اس کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ یعنی آپ صرف بچے کو انگوٹھا چوسنے کی عادت سے نجات دلانے کیلئے ایک اور نقصان دہ طریقہ اختیار کر لیتے ہیں۔ ان نقصانات کی کئی وجوہ ہیں ایک تو یہ کہ بچہ اگر مسقلاًاس عادت میں مبتلا ہو جائے تو پھر وہ ذرا بڑا ہو کر بھی اسے استعمال کرتا رہتا ہے اور والدین کیلئے یہ بات تشویش ناک ہوتی ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ چوسنی زمین پر گر جائے اور بستر خراب ہو تو جراثیم اس کے ساتھ لگ جاتے ہیں اور اس کے ذریعے بچے کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
پھر جب بچے کے دانت نکل آتے ہیں تو وہ چوسنی کو کاٹنے لگتا ہے اور ربڑ کے ٹکڑے اس کے منہ کے اندر چلے جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ یہ گلے میں پھنس بھی سکتے ہیں‘ بعض نپل بہت بڑے ہوتے ہیں جو بچے کے تالو سے لگے رہتے ہیں یہ جگہ مسلسل لگے رہنے سے چھل بھی سکتی ہے۔ایک اور نقصان یہ ہے کہ اس سے بچے کے ہضم پر برا اثر پڑتا ہے اور اکثر اسے پیٹ میں گیس کی شکایت ہو جاتی ہے جس سے بچہ تکلیف محسوس کرتا ہے۔
لیکن آج کل ماہرین جس بڑے نقصان کی طرف اشارہ کررہے ہیں وہ ہے دانتوں کا اثرانداز ہونا۔ وہ اکثر اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ چوسنی کے استعمال سے بچے کے دانت صحیح طور پر نہیں اُگتے اور یہ آگے کی طرف نکلتے ہیں جس سے بچے کے منہ کی شکل خراب ہو جاتی ہے۔ دانت آگے کی طرف ہونے سے بچہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دور حاضر میں نوجوان نسل کے اکثر بچوں میں منہ کھلا ہونے‘ دانتوں کے بدشکل ہونے اور آواز کے بھاری ہونے کی جو شکایت پائی جاتی ہے وہ سب اس چوسنی کا نتیجہ ہے۔ ان تمام حقائق کی بنیاد پر ماہرین نے یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ ماﺅں کو صرف انگوٹھا چوسنے کی عادت ختم کرانے کیلئے چوسنی کا استعمال نہیں کرانا چاہیے کیونکہ یہ بہرحال کئی نقصانات کاباعث بنتی ہے۔ صرف بعض ناگزیر حالات میں استعمال کرنا چاہیے جب کہ بچہ رو یا تنگ کررہا ہو۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اگر بچے کو اچھی طرح سے ماں کا دودھ پلایا جائے اور اس کی ہر طرح سے تسلی ہوتو وہ انگوٹھا چوسنے یا چوسنی کی طرف مائل نہیں ہوتا اس لیے ماﺅں کو کوشش کرنی چاہیے کہ فیڈر کے بجائے اپنا دودھ زیادہ پلائیں تاکہ بچے میں کسی قسم کی تشنگی باقی نہ رہ جائے اور وہ لاشعوری یا شعوری طور پر مصنوعی طریقوں کی طرف مائل نہ ہو سکے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 210
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں